بدیہیاتِ قرآن کریم

ان کی حکمتیں، اور فائدے

 

از:مولانا محمد عارف جمیل المبارکفوری

شارجہ، متحدہ عرب امارات

 

بدیہیات کی تعریف

بدیہیات : عربی لفظ ”بداہت“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی: کسی چیز کا ابتدائی حصہ، یک لخت درپیش امر۔

بدیہی: ایسا مسئلہ جس کو مان لیاگیا ہو، اس کو منوانے کے لیے، اس سے بسیط مسائل کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہ ہو، مثلاً کسی چیز کے آدھے حصے، برابر، برابر ہوتے ہیں۔ (۱) بدیہی ایسی چیز ہوتی ہے، جس کا حصول نظر و اکتساب پر موقوف نہیں ہوتا۔

ابن حزم نے معارف و علوم نفس کو شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک قسم وہ ہے، جس کا ادراک، حواسِ خمسہ کے ذریعہ ہو۔ پھر معرفت و ادراک کی چھٹی قسم شمار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: جس کا علم، بدیہیات کے ذریعہ ہو۔ ابن حزم نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ جیسے: جزو، کل سے چھوٹا ہوتا ہے، کوئی چیز اپنی ضد کے ساتھ یک جا نہیں ہوتی، اور یہ کہ کسی بھی فعل کے لیے فاعل کا ہونا ضروری ہے۔(۲)

لیکن یہاں پر بدیہیات، مسلمات اوریقینیات کے مابین، فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ لہٰذا ذیل میں مسلمات اور یقینیات کی تعریف ذکر کی جاتی ہے، نیز یہ کہ ان دونوں کا اول الذکر سے کیا تعلق ہے:

مسلمات

شریف جرجانی اس کی تعریف میں رقم طراز ہیں:

”ایسے قضیے، جو فریقِ مخالف کی طرف سے تسلیم شدہ ہوں، اور فریق مخالف کی تردید کے لیے گفتگو کی بنیاد ان پر رکھی جائے۔ خواہ یہ قضیے، فریقین کے درمیان مسلم ہوں یا عام اہل علم کے مابین، جیسے فقہاء کے یہاں اصولِ فقہ کے مسائل کا مسلم ہونا“(۳)

مسلمات اور بدیہیات کے مابین نسبت

ان دونوں میں عموم و خصوص کی نسبت ہے۔ ہر بدیہی ”مسلم“ ہے، لیکن ہر ”مسلم“ بدیہی نہیں۔ یعنی مسلمات، بدیہیات سے عام ہیں۔

یقینیات

یقین: وہ اثر ہے، جو بداہت، دل کے اندر چھوڑتی ہے، یا وہ اندرونی شعور جو دل کے اندر پیدا کرتی ہے۔(۴)

مسلمات کی مثال

”معاد“ کے منکرین کے رد میں، مبدأ (آغاز و ابتداء) سے استدلال کرنا، جیسے فرمانِ باری ہے: قَالَ مَنْ یُحْیِيْ العِظَامَ وَہِيَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْنَ أنْشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ، وَہُوَ بکلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ (سورہ یٰسین/۷۸)

(ترجمہ: کہتا ہے کہ ہڈیوں کو (خصوصا) جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کرے گا۔ آپ جواب دیجئے کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے اول بار ان کو پیدا کیا، اور وہ سب طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے)

بدیہیات کی مثال

فرمان باری ہے: ”وَلاَ طَائرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ (سورہ انعام / ۳۸)

(اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں)

یہاں پر اول وہلہ میں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پرندہ اپنے بازوؤں کے ذریعہ ہی اڑتا ہے، پھر بھی (بَجَنَاحَیْہِ) کا اضافہ کیاگیا۔ اب یہاں پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ بدیہی ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا تو آخر اس میں کیا حکمت پنہاں ہے۔

بدیہیات کی انواع و اقسام

بدیہیات کی چند اقسام ہیں:

(۱) حسابی بدیہیات : مثلاً اللہ تعالیٰ نے : ”فَصِیَامُ ثَلاَثَةِ أیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ اذَا رَجَعْتُمْ کے بعد فرمایا : ”تِلْکَ عَشَرَةٌ کَامِلَةٌ ․ (سورہ بقرہ/ ۱۹۶)

(۲) لغوی بدیہیات : مثلاً فرمانِ باری ہے: فَخَرَّ عَلَیْہِمْ السَقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ (سورة نحل/۲) ظاہر ہے کہ چھت اوپر ہی سے گرے گی۔

(۳) عادی بدیہیات : کسی چیز کو اس کے لازم یا اس کے آلہ و واسطہ کے ساتھ ذکر کرنا، کسی چیز کا اثبات اور اس کی نقیض کی نفی کرنا، کسی چیز کا حکم دینا، اور اس کی ضد سے روکنا، یا جملہ خبریہ، جس کا ثبوت قطعی ہو۔

اس کی مثال : ”وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّینَ“ کے بعد (بِغَیْرِ الحَقّ) (سورہ بقرہ/۶۱)؛ اس لیے کہ انبیاء کا قتل، ناحق ہونا لازم ہے۔

نیز فرمان باری ہے : ”فَوَیْلٌ للَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الکِتَابَ بِأَیْدِیْہِمْ“ (سورہ بقرہ/۳۸) لکھنا ہاتھ کے ذریعہ ہوتا ہے۔

نیز فرمان باری ہے: ”وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ“ (سورہ انعام / ۳۸) اڑنا، بازوؤں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔(۵)

بدیہیات کے درجے

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ بدیہیات میں ظہور و وضاحت، مختلف درجے کی ہوتی ہے، کبھی کبھی تووضاحت اس درجہ زیادہ ہوتی ہے کہ ہر کس و ناکس اس کو سمجھ لیتا ہے۔ جیسے فرمانِ باری: ”وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ“ کہ کوئی بھی قرآن پڑھنے والا، اس کی مزید توضیح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا؛ لیکن بسا اوقات بدیہیات میں، اس درجہ وضاحت نہیں ہوتی؛ بلکہ اول وہلہ میں آدمی یہ سمجھ نہیں سکتا کہ یہ بدیہی ہے؛ لیکن توضیح و تشریح کے بعد، اس کی سمجھ میں آجاتا ہے، اور ایسا ممکن ہے کہ بدیہی ہوتے ہوئے بھی ہر کس و ناکس کے لیے واضح نہ ہو، مثلاً سورج کی روشنی کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن بسا اوقات آدمی اس کو نہیں دیکھ سکتا، یا اس لیے کہ کوئی آڑ اور پردہ حائل ہے یا خود دیکھنے والے کی آنکھ میں کوئی قصور اور نقص ہے۔

اس قسم کی بدیہیات کی مثالیں :

۱- فرمانِ باری : ”أوکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ“ (سورہ بقرہ/۱۹)

(جیسے بارش آسمان کی طرف سے)

۲- فرمانِ باری : ”سُبْحَانَ الَّذِیْ أسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلاً“ (سورہ اسراء/۱)

(وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ محمد … کو شب کے وقت لے گیا)

۳- فرمانِ باری : ”وَلاَ تَعْثَوْ فِی الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ“ (سورہ بقرہ/۶۰)

(اور مت نکلو فساد (فتنہ) کرتے ہوئے زمین میں)

یہاں ”من السماء“، ”لیلا“ اور ”مفسدین“ بدیہی ہیں، لیکن ہر کوئی اسے فوری طور پر سمجھ نہیں سکتا، البتہ اگر یہ وضاحت کردی جائے کہ ”صیب“ لغوی اعتبار سے آسمان ہی سے ہوتی ہے، ”اسراء“ رات میں لے جانے کا نام ہے، اور ”عثو“ حد درجہ فساد انگیزی ہے، تو ان کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔(۶)

ایک دوسری بات یہ ہے کہ مفسرین کرام، بدیہیات کے جو فائدے اور حکمتیں ذکر کرتے ہیں، ان میں اختلاف ہوسکتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک غلط، دوسرا صحیح؛ کیونکہ ہر مفسر اپنی اپنی صلاحیت و استعداد اور قرآن فہمی کی روشنی میں یہ فائدے ذکر کرتا ہے؛ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں فائدے درست ہوں، ان میں فی الواقع کوئی تعارض و اختلاف نہ ہو۔

سورہٴفاتحہ اور بدیہیات

اس سورہ میں تین مقامات پر بدیہیات ہیں:

۱- فرمانِ باری ہے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ

(سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں، جو مربی ہیں ہر ہر عالم کے، جو بڑے مہربان، نہایت رحم والے ہیں، جو مالک ہیں روز جزاء کے)

یہاں پر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ ”مالک یوم الدین“ کا مطلب پہلے ٹکڑے ”رب العالمین“ سے سمجھ میں آرہا تھا، اس کے ذکر کرنے کی بظاہر ضرورت نہ تھی؛ اس لیے کہ ”رب“ کا معنی : مالک متصرف ہے۔ اور ”عالمین“ سے مراد بہ قول زجاج: دنیا و آخرت کی ساری کائنات ہے۔ قرطبی نے اس کی تصحیح کی، اور ابن کثیر نے اس کو نقل کیا ہے۔(۷) اس معنی کے لحاظ سے ”رب العالمین“ دنیا و آخرت کی ہر چیز کا مالک ہوگا، لہٰذا اس کے بعد ”مالک یوم الدین“ کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟

اس کے جواب میں مشہور مفسر ابوحیان لکھتے ہیں:

”قرآن کریم میں (کبھی کبھی) پہلے عام، پھر خاص کو ذکر کیا جاتاہے، مثلاً : ”الخَالِقُ البَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ“ (سورہ حشر/۲۴) کہ لفظ ”خالق“ عام ہے، اس کے بعد ”المصور“ کا ذکر، صنعت وحکمت کی وجوہات بیان کرنے کے لیے فرمایا۔ اس کی ایک مثال : ”اَلَّذِیْنَ یُوٴْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ“ کے بعد ”وبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ“ ہے“۔(۸)

آگے رقم طراز ہیں:

”اور خاص طور پر اس اضافہ کا فائدہ (حالاں کہ اللہ تعالیٰ سارے زمان و مکان، اور اس کی تمام موجودات کا مالک ہے) یہ ہے کہ اس میں،اس روز، درپیش اہم امور، اس کی ہولناکیوں اور سختیوں پر تنبیہ ہو، کہ اس دن سب لوگ اللہ تعالیٰ کے روبہ رو کھڑے ہوں گے، اور جلد از جلد حساب و کتاب، نیک و بد کا فیصلہ، اور اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ جانے کے لیے سفارش کریں گے، یا اس بات پر تنبیہ ہے کہ اس دن وہ تمام چیزیں (جن کا اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر اپنے بندوں کو مالک بنادیاتھا) اسی کی طرف لوٹ جائیں گی، اور کسی کی ملکیت باقی نہیں رہے گی۔(۹)

یہ تو اس لحاظ سے ہے کہ ”رب“ مالک کے معنی میں ہے، لیکن ابن عاشور نے اس کا ایک دوسرا جواب دیا ہے، وہ اپنی تفسیر ”التحریر والتنویر“ میں رقم طراز ہیں:

”ظاہر تر یہ ہے کہ یہ لفظ (رب) اس ”رَبّہ“ سے ماخوذ ہے، جو تربیت دینے اور انتظام کرنے کے معنی میں ہے نہ کہ اس ”رَبَّہ“ سے جو مالک ہونے کے معنی میں ہے؛ اس لیے کہ پہلا معنی اس جگہ کے زیادہ لائق ہے؛ کیوں کہ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کی تربیت کرنے والا، ان کے امور کا منتظم اور ان کو آخری کمال تک پہنچانے والا ہے؛ نیز اس لیے کہ اگر اس کو ”مالک“ کے معنی میں لیں تواس کے بعد ”مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ“ کا ٹکڑا تاکید کی طرح ہوگا، اور تاکید خلافِ اصل ہے یہاں اس کی ضرورت نہیں، البتہ یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ ”عالمین“ کا لفظ صرف دنیا کے ”عالم“ کو شامل تھا، لہٰذا یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ دنیا کا مالک اور آخرت کا بھی مالک ہے۔“(۱۰)

۲- اس سورت میں بدیہیات کا دوسرا مقام یہ دونوں آیتیں ہیں: ”اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ“ (بتلا دیجئے ہم کو رستہ سیدھا، رستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا)۔

یہ قطعی طور پر معلوم ہے کہ ”صراط مستقیم“ ان لوگوں کے راستہ سے الگ ہے، جن پر اللہ کا غضب ہوا یا جو گم گشتہ راہ ہیں؛ بلکہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے، جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا۔ پھر جو چیز قطعی طور پر معلوم تھی اس کی تصریح کی ضرورت کیوں پڑی، اس میں کیا حکمت پنہاں ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ”صراط الذین․․․․ والا ٹکڑا، ماقبل ”الصراط المستقیم“ سے بدل ہے، یا عطف بیان، اوراس میں دو فائدے ہیں:

اول: بندوں کی طرف سے جو درخواست پیش ہوئی، اس کا ابتدائی مقصد یہ تھا کہ انہیں جس راستہ کی رہ نمائی کی جائے وہ نجات کا ذریعہ، واضح، آسان اور سہل ہو، رہا یہ کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہو، جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا، تویہ ایک زائد بات تھی، جس سے اس کی فضیلت عیاں ہوتی ہے۔(۱۱)

دوم: مشہور مفسر زمخشری اپنی تفسیر ”الکشاف“ میں رقم طراز ہیں:

”اگر یہ سوال کریں کہ بدل کا فائدہ کیا ہے؟ اس طرح (فعل کے اعادہ کے ساتھ) : اہدنا الصراط المستقیم اہدنا صراط الذین أنعمت علیہم“ کیوں نہیں فرمایا؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ اس میں تاکید ہے اس لیے کہ اس میں دوبارہ ذکر کرنا، اور یہ بتانا ہے کہ راہ مستقیم کی تشریح و توضیح: ”صراط مسلمین“ ہے، اوراس طرح مسلمانوں کے راستہ کے حق میں، نہایت اعلیٰ اور تاکیدی انداز میں، استقامت اور سیدھا ہونے کی گواہی ہوگی، جیسے آپ کہتے ہیں: کیا میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ کریم اور صاحب فضل شخص نہ بتاؤں یعنی فلاں ؟ اس شخص کے لیے فضل و کرم کا وصف بیان کرنے میں یہ انداز اس سے بلیغ ہے کہ آپ کہیں: کیا میں آپ کو فلاں شخص نہ بتاؤں جو سب سے زیادہ فضل و کرم والا ہے؟ اس لیے کہ پہلے اسلوب و انداز میں موصوف کا تذکرہ اولاً اجمالی طور پر پھر آپ نے ”فلاں“ کے لفظ کو سب سے زیادہ فضل وکرم والے کے لیے تفسیر کے طور پر استعمال کیا، اس طرح آپ نے اس کو فضل و کرم میں سب سے نمایاں شخصیت قرار دی، گویا آپ یوں کہنا چاہتے ہیں: جسے ایسے شخص کی تلاش ہو، جس میں یہ دونوں صفات یک جا ہوں تو فلاں کے پاس جائے؛ اس لیے کہ وہی معین طور پر بلا نزاع و اختلاف، دونوں صفات کے ساتھ بیک وقت متصف ہے۔(۱۲)

ابوحیان رقم طراز ہیں:

” صِرَاطَ الَّذِیْنَ ․․․ یہ ٹکڑا بیان کے لیے لایاگیا ہے، اس لیے کہ جب اس سے پہلے ”اہدنا الصراط المستقیم“ کا ذکر آیا، تواس میں ابہام تھا، جس کو ”صراط الذین“ کے ذریعہ دور کیاگیا، تاکہ ہدایت (جس کی درخواست کی گئی ہے) کا تذکرہ دوبار ہوجائے، اور یہ ”بدل“ بن گیا، جس میں ان لوگوں کے راستہ کا حوالہ ہے جن پرانعام ہوا، اور اس انداز میں ثبوت و تاکید زیادہ ہے، اور اس طرح کے ”بدل“ کا یہی فائدہ ہے؟ نیز اس لیے کہ وہ عامل کے تکرار کے درجہ میں ہوتا ہے، جو تقدیر عبارت میں دو جملے ہوتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ دو جملوں میں تاکید ہے، گویا ان لوگوں نے ہدایت کے مطالبہ کو دہرایا۔“(۱۳)

ابن عاشور رقم طراز ہیں:

”دوسرا فائدہ : ”بدل“ کے اسلوب میں جو اجمال پھر تفصیل ہے، اس لیے تاکہ مطلوبہ راستہ کا مفہوم اہل ایمان (جنھیں اس دعاء کی تلقین کی گئی ہے) کے دلوں میں مزید جاگزیں ہوجائے، اور اس کا وہی فائدہ ہو، جو تاکید معنوی کا ہوتا ہے۔ نیز اس اسلوب میں اس راستہ کی حقیقت کی تائید، اور ان کے دلوں میں اس کو جاگزیں کرنا ہے۔ لہٰذا اس کا مفہوم دوبارہ حاصل ہوا، جس کا وہی فائدہ ہے جو تاکید لفظی کا ہے۔“(۱۴)

ابن عاشور آگے لکھتے ہیں:

”بدل“ یا ”بیان“ میں اسم کا دوبارہ ذکر تاکہ اسے، پہلے اسم کے ساتھ جس چیز کو مربوط کرنا ہے، اس کی بنیاد قرار دیا جاسکے، یہ بلاغت کا نہایت عمدہ اسلوب وانداز ہے تاکہ لفظ کے دوبارہ ذکر کے ذریعہ، اس بات کا احساس دلایا جاسکے کہ اس کا معنی قابل توجہ ہے، اور دل سے قریب یہی بات فعل کے تکرار میں ہوتی ہے۔ جیسے فرمان باری ہے:

”واِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا“ (سورہ فرقان /۷۲)

(اوراگر (اتفاقاً) بے ہودہ مشغلوں کے پاس ہوکر گزریں، تو سنجیدگی کے ساتھ گزرجاتے ہیں)

نیز فرمایا: ”اَلَّذِیْنَ أَغْوَیْنَا أَغْوَیْنَاہُمْ کَمَٓ غَوَیْنَا“ (سورہ قصص / ۶۳)

اس لیے کہ فعل (مَرُّوْا) اور ”أغوینا“ کے تکرار اوراس کے متعلق کو پہلے فعل کے بجائے دوسرے مکرر فعل کے ساتھ مربوط کرنے میں جو حسن ہے، اعادہ کے بغیر پہلے فعل کے ساتھ اس کو مربوط کرنے میں آپ کو نہیں ملے گا۔ اس طرح کے موقع پر، اعادہ، محض تاکید کے لیے نہیں آتا؛ اس لیے کہ اس میں ایسی چیز کا اضافہ ہے جس سے وہ مربوط و متعلق ہے۔“(۱۵)

اس کے بعد، ابن عاشور نے اعادہ کے تعلق سے ایک اہم فائدہ لکھا ہے:

”راہ مستقیم“ کے لیے یہ خاص صفت (کہ وہ انعام یافتہ لوگوں کی راہ ہو) اختیار کرنے میں، قبولیت کے لیے راہ ہموار کرنی ہے؛ اس لیے کہ آپ اگر کسی سخی آدمی سے یوں کہیں: جس طرح آپ نے ان کو عطا کیا مجھے بھی عطاء کیجئے۔ تو یہ انداز اس کو سخاوت پر زیادہ آمادہ کرنے والا ہے، جیسا کہ اس کی تقریر جدامجد محترم نے حدیث پاک : ”کما صلیت علی ابراہیم“ کی تشریح میں فرمائی۔ لہٰذا درخواست کرنے والے یوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں راہِ مستقیم دکھا دے، وہ راہ جو تونے اپنے بندگان نعمت کو دکھائی۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس میں ضمناً یہ مطالبہ بھی ہے کہ وہ مرتبہ ہدایت میں، ان لوگوں سے جاملیں جن پر انعام ہوا اور یہ مقصد بھی ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، ان اسباب کو اختیار کریں، جن کے ذریعہ وہ لوگ اس مرتبے پر پہنچے۔ فرمان باری ہے: ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“ (سورہ ممتحنہ/۶۱) (بے شک ان لوگوں میں تمہارے لیے عمدہ نمونہ ہے)

نیز بعد میں جو ”مغضوب علیہم“ اور ”ضالین“ کے حالات سے براء ت کا اظہار آرہا ہے، اس کیلئے تمہیدبھی ہے۔ اسطرح اس میں بھلائی کی توقع؛ اور برائی سے پناہ مانگنے؛ دونوں ہی پہلو ملتا ہے۔“(۱۶)

$$$

حواشی

(۱) المعجم الوسیط، و ترتیب القاموس المحیط (۲) الفصل والملل والاہواء والنحل ۱/۵ ، ط: دارالفکر ، بیروت (۳) التعریفات از جرجانی ، ص: ۲۷۳، ط: دارالکتاب العربی، بیروت (۴) معجم المصطلحات والشواہد الفلسفیہ بہ حوالہ البدہیات فی الحزب الدول من القرآن از ڈاکٹر فہد عبدالرحمن، ط: دوم مکتبہ توبہ۔ (۵) البدہیات ص : ۱۱ (۶) حوالہ بالا ص: ۱۲ (۷) تفسیر ابن کثیر ۱/۳۵، ط: دار عالم الکتب، ریاض (۸)البحر المحیط از ابو حیان ۱/۳۹ ط: دارالفکر بیروت، التحریر والتنویر از ابن عاشور ۱/۸ ط اول، دوحہ، قطر ؛ البدہدیات ص ۱۴ (۹) البحر المحیط ۱/۴۰ (۱۰) التحریر والتنویر ۱/۱۶۶ - ۱۶۷ (۱۱) حوالہ بالا ۱/۱۹۲ (۱۲) الکشاف از زمخشری ۱/۱۱ ط دارالمعرفة، بیروت ․ (۱۳) البحر المحیط ۱/۴۸ (۱۴) التحریر والتنویر ۱/۱۹۲ (۱۵) حوالہ بالا (۱۶) حوالہ بالا ۱/۱۹۳․

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 89 ‏،  جمادی الاول‏، جماد ی الثانی 1426ہجری مطابق جولائی 2005ء